Roger Swanson

Add To collaction

آقا

زائرِطیبہ!روضے پہ جاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا میرے غم کا فسانہ سنا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا تیری قسمت پہ رشک آرہا ہے تو مدینے کو اب جا رہا ہے آہ! جاتاہے مجھ کو رُلا کر، تُوسلام اُن سے رو رو کے کہنا جب پہنچ جائے تیرا سفینہ، جب نظرآئے میٹھا مدینہ باادب اپنے سر کو جھکا کر،تُوسلام اُن سے رو رو کے کہنا جب کہ آئے نظر پیارامکہ،چوم لینا نظر سے تُو کعبہ ہو سکے گر تو ہر جا پہ جاکر، تُو سلا م اُن سے رو رو کے کہنا تُو عرب کی حسیں وادیوں کو، ریگزاروں کو آبادیوں کو میری جانب سے پلکیں بچھاکر، تُو سلا م اُن سے رو رو کے کہنا جب کہ پیشِ نظرجالیاں ہوں ،تیری آنکھوں سے آنسو رواں ہوں
میرے غم کی کہانی سنا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا آمِنہ کے دُلارے کو پہلے،بعد شیخین کو بھی تُو کہہ لے پھر بقیعِ مبارَک پہ جا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا مانگنا مت تُو دنیا کی دولت، مانگنا ان سے بس ان کی الفت خوب دیوانے دل کو لگا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا میرے آقاکے محراب و منبر ان کی مسجِد کے دیوار اور در قلب کی آنکھ اُن پر جما کر تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا پیاری پیاری وہ جنّت کی کیاری، چوم لینا نگاہوں سے ساری بحرِ رَحمت میں غوطہ لگاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا سبز گنبد کے دلکش نظارے، رُوح پروَر وہاں کے مَنارے ان کے جلووں میں خود کوگُماکر، تُو سلا م اُن سے رو رو کے کہنا وہ شہیدوں کے سردار حمزہ، اور جتنے وہاں ہیں صحابہ تُو سبھی کے مزاروں پہ جاکر، تُو سلام اُن سے رو روکے کہنا تُو نمازوں کا پابند بن جا اور سرکار کی سنّتوں کا انقِلاب اپنے اندر بپا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا کُوئے محبوب کی بکریوں کو، مُرغیوں ،ککڑیوں ، لکڑیوں کو بلکہ تنکے وہاں کے اٹھا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا بِلّیاں جب مدینے کی دیکھے، خوب ادب سے انہیں پیار کرکے ہاتھ نرمی سے ان پہ پھرا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا سن مدینے میں بادَل گھریں جب،ان سے بیتاب قطرے گریں جب بارشِ نور میں تُو نہا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا اشکِ اُلفت کی مہکی لڑی سے، رحمتوں کی برستی جھڑی سے اپنا سینہ مدینہ بنا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا زائرِطیبہ! میرا فَسانہ، خوب رو رو کے اُن کو سنانا سوزِ الفت سے دل کو جلا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا سنگریزوں کو اور پتَّھروں کو، اونٹ گھوڑوں، خَروں، خَچَّروں کو اور پرندوں پہ نظریں جما کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا رو رہا ہے ہر اِک غم کا مارا، عَرض کرتا ہے تجھ سے بچارا میری بھی حاضِری کی دعا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا باغِ طیبہ کی مہکی فَضا کو، ٹھنڈی ٹھنڈی وہاں کی ہوا کو ہاتھ لہراکے سر کوجھکاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا چوم لینا مدینے کی گلیاں ، پتیّاں اور پھولوں کی کلیاں
سب کو آنکھوں سے اپنی لگاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا جب مدینے کے صَحرا سے گزرے، بھولنا مت، ذرا یاد کرکے خاکِ طیبہ ذرا سی اُٹھاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا تُو مدینے کے کُہسار کو بھی، خَس کو خاشاک کو خار کو بھی ذرّے ذرّے پہ آنکھیں بچھاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا اُن کا دیدار ہو گر مُیسَّر،ہوش بھی تیرا قائم رہے گر جوڑ کر ہاتھ،سَر کو جھکاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا وہ مدینے کے مَدنی نظارے، دلکَش و دلکُشا پیارے پیارے ان نظاروں پہ قربان جا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا اُن کا دیکھے جو نقشِ کفِ پا، خوب آنسو وہاں پر بہانا اورپلکوں سے جھاڑو لگاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا بے بسوں ، غم کے مارو ں کو بھائی! بے کسوں ، دلفِگاروں کوبھائی! خود بھی روکر، انہیں بھی رُلاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا اشکبار آنکھ والوں کو بھائی! اُن کی آہوں کو نالوں کو بھائی! تُو مزیداُن کے غم میں رلاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا تُو مدینے کی ہریالیوں کو، اور پھلوں سے لدی ڈالیوں کو میٹھی میٹھی کھجوریں منگاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا وہ مدینے کے پیارے کبوتر، جب نظر آئیں تجھ کو بِرادر ان کو تھوڑے سے دانے کھلاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا تُو دَرَختوں کو اور جھاڑیو ں کو، اُن کی گلیوں کی سب گاڑیوں کو ہاتھ اپنا ادب سے لگاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا بوتلوں بلکہ تو ڈھکَّنوں کو، دال، گندُم کے دانوں ،چنوں کو چوم کر آنکھ سے بھی لگاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا بینگنوں ، بِھنڈیوں ، توریوں کو، گوبیوں ، گاجروں ، مُولیوں کو آنکھ سے لَوکیوں کو لگاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا کہنا سیبو ں کو اور آڑوؤں کو، اور کیلوں کو زَرد آلوؤں کو اور تربوز سر پر اٹھا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا توقَنادیل کو قُمقُموں کو، تُو سُوِچ، تار کو، کولروں کو ٹھنڈا پانی کسی کو پلا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا چیونٹیوں ، کھونٹیوں ، ٹُونٹیوں کو ہر طرح کی جڑی بوٹیوں کو بار بار ان پہ نظریں جماکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا چاولوں، روٹیوں بوٹیوں کو، مرغ، انڈوں کو اور مچھلیوں کو سبزیوں کو وہاں کی پکاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا تھالیوں کو پیالوں کو بھائی! مِرچ کو اور مسالوں کو بھائی! چائے کی کیتلی کو اٹھا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا ٹھنڈے پنکھوں کو اور ہیٹروں کو بلکہ تاروں کو اور میٹروں کو بتّیوں کو وہاں کی جلاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا جس قدر بھی ہیں پانی کے نلکے، پھل توپھل بلکہ بیج اور چھلکے ہاتھ ان کی طرف بھی بڑھاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا تُو مکانوں کو بھی کھڑکیوں کو اور دیوار و در سیڑھیوں کو ہاں عقیدت سے دل میں بٹھاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا رسّیوں ،قینچیوں اورچھریوں ،چادروں ،سوئی دھاگوں کودریوں
سب کو سینے سے اپنے لگاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا کاش ہوتامیں سگ سیِّدوں کا، بن کے دربان پہرا بھی دیتا رب نے بھیجا ہے اِنساں بناکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا مسجِدِ پاک کے مُصحَفوں کو، خوبصورت وہاں کی صَفوں کو خاک آنکھوں میں اپنی لگاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا جب مدینے سے تُو ہوگا رخصت، غم سے ہو گی عجب تیری حالت اپنی پلکوں پہ موتی سجاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا عرض کرنا کہ ہے عرض اتنی ، حاضِری ہو مدینے ہماری سب کی جانب سے یہ التجاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا عرض کرنا یہ بے چارے بے بس، کہتے تھے سب یہ رو رو کے بیکس ہم کو قدموں میں مدفن عطاکر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا تُو غلاموں پہ کہنا کرم کر، یانبی دور رنج و الم کر ان کو اپنی مَحَبَّت عطا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا کہنا عطّارؔ اے شاہِ عالی! ہے فَقَط تجھ سے تیرا سُوالی تو سُوال اِس کا پورا شہا کر، تُو سلام اُن سے رو رو کے کہنا

   0
0 Comments